Iztirab

Iztirab

غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا

غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا
ہم نے مرنا بھی جو چاہا تو وسیلہ نہ ملا
مدتوں بعد جو آئینے میں جھانکا ہم نے
اتنے چہرے تھے وہاں اپنا ہی چہرہ نہ ملا
قتل کر کے وہ غنیموں کو جو واپس آئے
اپنے ہی گھر میں انہیں کوئی شناسا نہ ملا
ہم بھی جا نکلے تھے سورج کے نگر میں اک دن
وہ اندھیرا تھا وہاں اپنا بھی سایہ نہ ملا
تشنہ لب یوں تو زمانے میں کبھی ہم نہ رہے
پیاس جو دل کی بجھا دیتا وہ دریا نہ ملا
مل گئے ہم کو صنم خانوں میں کتنے ہی خدا
ڈھونڈنے پر کوئی بندہ ہی خدا کا نہ ملا
آپ کے شہر میں پیڑوں کا نہیں کوئی شمار
دو گھڑی رکنے کو لیکن کہیں سایہ نہ ملا
سبز پتوں سے ملا ہم کو بہاروں کا سراغ
شاخ نازک پہ مگر کوئی شگوفہ نہ ملا
مستحق ہم تری رحمت کے نہ ہونے پائے
تیری دنیا میں کوئی عذر خطا کا نہ ملا
خود نمائی کے بھی اس دور میں ہم کو ساحرؔ
کوئی قاتل نہ ملا کوئی مسیحا نہ ملا
ساحر  ہوشیارپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *