غنچہ غنچہ ہنس رہا تھاپتی پتی رو گیا پھول والوں کی گلی میں گل تماشا ہو گیا ہم نے دیکھیں دھوپ کی سڑکوں پہ جس کی وحشتیں رات کے سینے سے لگ کر آخرش وہ سو گیا آسماں کے روزنوں سے لوٹ آتا تھا کبھی وہ کبوتر اک حویلی کے چھجوں میں کھو گیا اک گلی کے نور نے تاریک کتنے گھر کیے وہ نہ لوٹا شخص بینا آنکھیں لے کر جو گیا