غیر کہ گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں تا نا اس بات کا چرچا ہو میری جان کہیں اب تلک غنچے کی گردن ہے جھکی خجلت سے اس نے دیکھی تھی تیری گوئے گریبان کہیں راز دِل اس سے کہا میں تُو ولے یہ ڈر ہے کے میرے راز کو کہہ دے نہ وُہ نادان کہیں اے پریشانئ زلف صنم کافر کیش کیجیو تُو نہ میرے دِل کو پریشان کہیں دِل کی بے چینی سے میں سخت بتنگ آیا ہوں چین پڑتا ہی نہیں ہے اسے اِک آن کہیں دھانی جوڑے نے تیرے کھیت رکھا ہے مُجھ کو سبز رنگ اتنے تُو دیکھے نہیں ہیں دھان کہیں منع کس واسطے کرتا ہے میں ترے صدقے عید کہ دِن تُو مُجھے ہونے دے قربان کہیں درد دِل جا کہ میں کہہ لوں ابھی در کہ نزدیک ایک ساعت کو ہی اُٹھ جاوے جُو دربان کہیں مصحفیؔ ایک غزل اُور بھی میں لکھتا ہوں یہ تُو بیتیں کئی میں نے بہت آسان کہیں
غلام ہمدانی مصحفی