Iztirab

Iztirab

غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے

غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
آ کے میرے روبرو تلوار چمکانے لگے
جی میں کیا گزرا تھا کل جو آپ رکھ قبضہ پہ ہاتھ
خوب سا گھورے مجھے اور تن کے بل کھانے لگے
دل طلب مجھ سے کیا میں نے کہا حاضر نہیں
یہ غضب دیکھو مچل کر پاؤں پھیلانے لگے
قتل کر کر یہ نہیں معلوم کیا گزرا خیال
دیکھ وہ بسمل مجھے کچھ حیف سا کھانے لگے
یار مجھ کو دیکھ زا رونا تو ان سا ہجر میں
مشفقانہ کچھ نصیحت جبکہ فرمانے لگے
جل کے رنگیںؔ میں نے یہ مصرع تجلیؔ کا پڑھا
.دل کو سمجھاؤ مجھے کیا آ کے سمجھانے لگے

سادات یار خان رنگین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *