Iztirab

Iztirab

فراق یار نے بے چین مُجھ کو رات بھر رکھا

فراق یار نے بے چین مُجھ کو رات بھر رکھا 
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا 
شکست دل کا باقی ہم نے غربت میں اثر رکھا 
لکھا اہل وطن کو خط تُو اِک گوشہ کتر رکھا 
برابر آئینے کہ بھی نہ سمجھے قدر وُہ دِل کی 
اسے زیر قدم رکھا اسے پیش نظر رکھا 
مٹائے دیدہ و دِل دونُوں مرے اشک خونیں نے 
عجب یہ طفل ابتر تھا نہ گھر رکھا نہ در رکھا 
تمہارے سنگ در کا ایک ٹکڑا بھی جُو ہاتھ آیا 
عزیز ایسا کیا مر کر اسے چھاتی پہ دھر رکھا 
جناں میں ساتھ اپنے کیوں نہ لے جاؤں گا ناصح کو 
سلوک ایسا ہی مرے ساتھ ہے حضرت نے کر رکھا 
نہ کی کس نے سفارش مری وقت قتل قاتِل سے 
کماں نے ہاتھ جّوڑے تیغ نے قدموں پہ سر رکھا 
غضب برسے وُہ مرے آتے ہی معلوم ہوتا ہے 
جگہ خالی جُو پائی یار کو غیروں نے بھر رکھا 
بڑا احساں ہے مرے سر پہ اِس کی لغزش پا کا 
کے اِس نے بے تحاشا ہاتھ مرے دوش پر رکھا 
زمیں میں دانۂ گندم صدف میں ہم ہوے گوہر 
ہمارے عجز نے ہر معرکہ میں ہم کو در رکھا 
تیرے ہر نقش پا کو رہ گزر میں سجدہ گہ سمجھے 
جہاں تُو نے قدم رکھا وہاں میں نے بھی سر رکھا 
امیر اچھا شگون مے کیا ساقی کی فرقت میں 
.جُو برسا ابر رحمت جائے مے شیشوں میں بھر رکھا 

امیر مینائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *