Iztirab

Iztirab

فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے

فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے 
مگر اک جرم کی پاداش میں جنت سے ہم نکلے 
غم‌ دنیا و دیں ان کو نہ فکر نیک و بد ان کو 
محبت کرنے والے بے نیاز بیش و کم نکلے 
غرض کعبہ سے تھی جن کو نہ تھا مطلب کلیسا سے 
حد دیر و حرم سے بھی وہ آگے دو قدم نکلے 
سحر کی منزل روشن پہ جا پہنچے وہ دیوانے 
شب تاریک میں جو نور کا لے کر علم نکلے 
مہ و خورشید بن کر آسمانوں پر ہوئے روشن 
دو آنسو وہ مری آنکھوں سے جو شام الم نکلے 
سکوت شب میں ہم نے ایک رنگیں خواب دیکھا تھا 
مسرت جاوداں ہوگی اگر تعبیر غم نکلے 
نہ ملتی ہوں شراب زندگی کی تلخیاں جن میں 
سنا ہے وہ ضیاؔ کے دل سے ایسے شعر کم نکلے 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *