Iztirab

Iztirab

فرصت کی تمنا میں

یوں وقت گزرتا ہے 
فرصت کی تمنا میں 
جس طرح کوئی پتا 
بہتا ہوا دریا میں 
ساحل کے قریب آ کر 
چاہے کہ ٹھہر جاؤں 
اور سیر ذرا کر لوں 
اس عکس مشجر کی 
جو دامن دریا پر 
زیبائش دریا ہے 
یا باد کا وہ جھونکا 
جو وقف روانی ہے 
اک باغ کے گوشے میں 
چاہے کہ یہاں دم لوں 
دامن کو ذرا بھر لوں 
اس پھول کی خوشبو سے 
جس کو ابھی کھلنا ہے 
فرصت کی تمنا میں 
یوں وقت گزرتا ہے 

افکار معیشت کے 
فرصت ہی نہیں دیتے 
میں چاہتا ہوں دل سے 
کچھ کسب ہنر کر لوں 
گلہائے مضامیں سے 
دامان سخن بھر لوں 
ہے بخت مگر واژوں 
فرصت ہی نہیں ملتی 
فرصت کو کہاں ڈھونڈوں 
فرصت ہی کا رونا ہے 
پھر جی میں یہ آتی ہے 
کچھ عیش ہی حاصل ہو 
دولت ہی ملے مجھ کو 
وہ کام کوئی سوچوں 
پھر سوچتا یہ بھی ہوں 
یہ سوچنے کا دھندا 
فرصت ہی میں ہونا ہے 
فرصت ہی نہیں دیتے 
افکار معیشت کے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *