Iztirab

Iztirab

فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے

فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے
اور جلوہ ریز آپ مکاں در مکاں رہے
گھر بے نشاں قفس سے رہائی چمن میں برق
اس بے بسی کے دور میں کوئی کہاں رہے
روداد اپنے عشق کی گونگے کا خواب تھا
تا زیست اپنے راز کے خود راز داں رہے
تم کیوں اداس ہو گئے میدان حشر میں
کہہ دو تو دل کی دل میں مری داستاں رہے
منزل تھی دور راہ تھی غم خود شکستہ پا
شوق طلب بتا تو سہی ہم کہاں رہے
دنیا ہو ابرؔ یا وہ عدم ہو کہ بزم حشر
ان کی ہی جستجو میں رہے ہم جہاں رہے

ابر احسنی گنوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *