Iztirab

Iztirab

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

فقیرانہ آئے صدا کر چلے 
 میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم 
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے 
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی 
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے 
پڑے ایسے اسباب پایان کار 
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے 
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے 
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے 
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ 
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے 
بہت آرزو تھی گلی کی تری 
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے 
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا 
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے 
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی 
حق بندگی ہم ادا کر چلے 
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے 
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے 
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں 
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے 
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے 
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے 
گئی عمر در بند فکر غزل 
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے 
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ 
.جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *