Iztirab

Iztirab

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا
باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا
محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
.اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا

خواجہ میر درد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *