Iztirab

Iztirab

قدامت محبت

مہکتی تھی فضا پر کیف منظر تھا بہاروں کا 
سمٹ کر آ گیا تھا نور ذروں میں ستاروں کا 
فضاؤں میں ترنم تھا پرندے چہچہاتے تھے 
ہوا کے سرد جھونکے بے خودی کا گیت گاتے تھے 
وہ رت آموں کی ساون کا مہینہ شام بھیگی سی 
چمن میں موتیوں سے پر تھی جھولی غنچہ و گل کی 
سرور و کیف میں کھویا ہوا تھا دل کشا منظر 
مسرت آفریں تھا سر بہ سر برسات کا منظر 
اچانک اس کو ایسے وقت پہلی بار دیکھا تھا 
خدا معلوم کیا جادو بھرا وہ حسن رعنا تھا 
بچھی جاتی تھی موسم کی نزاکت اس کے قدموں میں 
مچلتی تھی بہاروں کی لطافت اس کے قدموں میں 
اسی کے دم سے سارا گلستاں فردوس منظر تھا 
چمن میں انحصار موسم گل تک اسی پر تھا 
دل آنکھوں سے یہ کہتا تھا نگاہ غور سے دیکھو 
کہیں اس روپ میں دوشیزۂ فطرت نہ آئی ہو 
اتر آیا نہ ہر فرش زمیں پر چاند کا ٹکڑا 
کوئی بھٹکا ہوا جلوہ نہ ہو گلزار جنت کا 
ثریا کا کوئی پرتو نہ ہم آغوش فطرت ہو 
کوئی انجم نہ بھولے سے ضیا بر دوش فطرت ہو 
وہ جلوہ جس کو خود رعنائیٔ فطرت پہ پیار آئے 
وہ جس کے خیر مقدم کو دو عالم کی بہار آئے 
وہ قدرت تھی خدا کی جس پہ خود قدرت تصدق تھی 
وہ برکت تھی یقیناً جس پہ ہر برکت تصدق تھی 
وہ صورت تھی جسے نور خدا شان خدا کہیے 
جسے تسکین دل کائے نظر کا مدعا کہیے 
تمنا تھی کہ اس کو دیکھ کر بس دیکھتے جائیں 
شراب بے خودی پی کر نہ اپنے آپ میں آئیں 
اسی کا رنگ تھا گل میں کلی میں روپ اس کا تھا 
نہ حسن دل ربا ایسا سنا ہی تھا نہ دیکھا تھا 
وہ اک منہ بولتی تصویر تھی حسن و نزاکت کی 
خود آنکھیں بن کے جلوہ دیکھنے کی دل کو حسرت تھی 
کسے اس کی خبر تھی پیار بن جائے گی یہ حسرت 
کسے معلوم تھا آزار بن جائے گی یہ حسرت 
رشیؔ کس کو پتہ تھا آنکھ مل کر دل بھی اٹکے گا 
بالآخر خار الفت عمر بھر سینے میں کھٹکے گا 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *