Iztirab

Iztirab

قومی گیت

ہم کام کے نغمے گاتے ہیں بیکار ترانہ کیا جانیں 
جو صرف عمل کے بندے ہیں وہ بات بنانا کیا جانیں 
رگ رگ میں لہو کو گرماتے جاتے ہیں وطن کی جے گاتے 
ہم عہد جوانی کے ماتے بوڑھوں کا زمانہ کیا جانیں 
طوفان میں کشتی کھیتے ہیں کہسار سے ٹکر لیتے ہیں 
ہم جنگ میں سر دے دیتے ہیں ہم پاؤں ہٹانا کیا جانیں 
بگڑوں کو بنانے آئے ہیں غربت کو مٹانے آئے ہیں 
ہم آگ بجھانے آئے ہیں ہم آگ لگانا کیا جانیں 
دیوار وہ کالے زنداں کی تصویر وہ ظلم انساں کی 
شاہد ہے ہمارے ارماں کی ہم جان چرانا کیا جانیں 
وہ حسن و جوانی کی راتیں وہ کیف و ترنم کی باتیں 
وہ لعل و گہر کی برساتیں ہم لوگ منانا کیا جانیں 
افلاس کے مارے بندوں کے کس طرح بلکتے ہیں بچے 
جو دیکھ رہے ہیں آنکھوں سے وہ جشن منانا کیا جانیں 
وہ اور ہیں جو کرتے ہیں ستم خود شاد ہیں دنیا محو الم 
ہم زخم پہ رکھتے ہیں مرہم ہم زخم لگانا کیا جانیں 
بے خوف چلے سنگینوں پر اور روک لی گولی سینوں پر 
لکھا ہے ہماری جبینوں پر ہم سر کا جھکانا کیا جانیں 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *