Iztirab

Iztirab

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق 
سچ تو یوں ہے بری بلا ہے عشق 
اثر غم ذرا بتا دینا 
وہ بہت پوچھتے ہیں کیا ہے عشق 
آفت جاں ہے کوئی پردہ نشیں 
کہ مرے دل میں آ چھپا ہے عشق
بوالہوس اور لاف جانبازی 
کھیل کیسا سمجھ لیا ہے عشق 
وصل میں احتمال شادی مرگ 
چارہ گر درد بے دوا ہے عشق 
سوجھے کیونکر فریب دل داری 
دشمن آشنا نما ہے عشق 
کس ملاحت سرشت کو چاہا 
تلخ کامی پہ بامزا ہے عشق
ہم کو ترجیح تم پہ ہے یعنی 
دل ربا حسن و جاں ربا ہے عشق 
دیکھ حالت مری کہیں کافر 
نام دوزخ کا کیوں دھرا ہے عشق 
دیکھیے کس جگہ ڈبو دے گا 
میری کشتی کا ناخدا ہے عشق 
اب تو دل عشق کا مزا چکھا 
ہم نہ کہتے تھے کیوں برا ہے عشق 
آپ مجھ سے نباہیں گے سچ ہے 
باوفا حسن و بے وفا ہے عشق 
میں وہ مجنون وحشت آرا ہوں 
نام سے میرے بھاگتا ہے عشق 
قیس و فرہاد و وامق و مومنؔ 
.مر گئے سب ہی کیا وبا ہے عشق

مومن خان مومن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *