Iztirab

Iztirab

قید اور قید بھی تنہائی کی

قید اور قید بھی تنہائی کی
شرم رہ جائے شکیبائی کی
سوجھتا کیا ہمیں ان آنکھوں سے
شرط تھی قلب کی بینائی کی
در بت خانہ سے بڑھنے ہی نہ پائے
گرچہ اک عمر جبیں سائی کی
قیس کو ناقہ لیلیٰ نہ ملا
گو بہت بادیہ پیمائی کی
ہم نے ہر ذرہ کو محمل پایا
ہے یہ قسمت ترے صحرائی کی
وقف ہے اس کے لیے جان عزیز
کعبہ کے خادم و شیدائی کی
کعبہ و قدس میں گھر کیا یہ بھی
اک ادا ہے مرے ہرجائی کی
نظر آیا ہمیں ہر چیز میں تو
اس پہ یہ دھوم ہے یکتائی کی
عشق اور جور ستم گر کا گلہ
حد ہے اے دل یہی رسوائی کی
عشق کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
کر گئی زندہ جاوید ہمیں
تیغ قاتل نے مسیحائی کی
ہو نہ تقلید دلا مقتل میں
کہیں موسیٰ سے تمنائی کی
نہ سہی تیغ تجلی ہی سہی
آنکھ جھپکے نہ تماشائی کی
کل کو ہے پھر وہی زنداں جوہرؔ
ٹھیک کیا آپ سے سودائی کی

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *