Iztirab

Iztirab

لبریز ہو چکا ہے پیمانہ زندگی کا

لبریز ہو چکا ہے پیمانہ زندگی کا
سن جاؤ اب بھی آ کر افسانہ زندگی کا
جب حال آپ ہی نے پوچھا نہ زندگی کا
پھر کس کو ہم سنائیں افسانہ زندگی کا
اب ہم ہیں اور ظالم تیری گلی کے چکر
گردش میں آ گیا ہے پیمانہ زندگی کا
کیا آپ سن سکیں گے روداد یاس و حسرت
کیا آپ کو سناؤں افسانہ زندگی کا
آؤ کہ بے تمہارے دم رک گیا ہے لب پر
کیوں طول کر رہی ہو افسانہ زندگی کا
خود میرے چارہ گر کا چہرہ اتر چلا ہے
اب دے فریب مجھ کو دنیا نہ زندگی کا
آؤ کہ آ رہے ہیں اب نزع کے پسینے
یعنی چھلک چلا ہے پیمانہ زندگی کا
تم بھی ہو کچھ خجل سے میرا بھی رک چلا دم
کہہ دو تو ختم کر دوں افسانہ زندگی کا
دامن پہ گر رہے ہیں اے ابرؔ اشک رنگیں
لکھتا ہوں خون دل سے افسانہ زندگی کا

ابر احسنی گنوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *