لبوں پہ نرم تبسم رچا کے دھل جائیں خدا کرے مرے آنسو کسی کے کام آئیں جو ابتدائےسفر میں دیے بجھا بیٹھے وہ بد نصیب کسی کا سراغ کیا پائیں تلاش حسن کہاں لے چلی خدا جانے امنگ تھی کہ فقط زندگی کو اپنائیں بلا رہے ہیں افق پر جو زرد رو ٹیلے کہو تو ہم بھی فسانوں کے راز ہو جائیں نہ کر خدا کے لئے بار بار ذکر بہشت ہم آسماں کا مکرر فریب کیوں کھائیں تمام مے کدہ سنسان میگسار اداس لبوں کو کھول کے کچھ سوچتی ہیں مینائیں
احمد ندیم قاسمی