Iztirab

Iztirab

لرزتے سائے

وہ فسانہ جسے تاریکی نے دہرایا ہے 
میری آنکھوں نے سنا 
میری آنکھوں میں لرزتا ہوا قطرہ جاگا 
میری آنکھوں میں لرزتے ہوئے قطرے نے کسی جھیل کی صورت لے  لی 
جس کے خاموش کنارے پہ کھڑا کوئی جواں 
دور جاتی ہوئی دوشیزہ کو 
حسرت و یاس کی تصویر بنے تکتا ہے 
حسرت و یاس کی تصویر چھناکا سا ہوا 
اور پھر حال کے پھیلے ہوئے پردے کے ہر اک سلوٹ پر 
یک بیک دامن ماضی کے لرزتے ہوئے سائے ناچے 
ماضی و حال کے ناطے جاگے 

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *