Iztirab

Iztirab

لمحوں کی پرستار

میں نے چاہا تھا اسے روح کی راحت کے لیے 
آج وہ جان کا آزار بنی بیٹھی ہے 
میری آنکھوں نے جسے پھول سے نازک سمجھا 
اب وہ چلتی ہوئی تلوار بنی بیٹھی ہے 
ہم سفر بن کے جسے ناز تھا ہم راہی پر 
رہزنوں کی وہ طرفدار بنی بیٹھی ہے 
کسی افسانے کا کردار بنی بیٹھی ہے 
اس کی معصومیت دل پہ بھروسہ تھا مجھے 
عزم سیتا کی قسم عصمت مریم کی قسم 
یاد ہیں اس کے وہ ہنستے ہوئے آنسو مجھ کو 
خندۂ گل کی قسم گریۂ شبنم کی قسم 
اس نے جو کچھ بھی کہا میں نے وہی مان لیا 
حکم حوا کی قسم جذبۂ آدم کی قسم 
پاک تھی روح مری چشمۂ زمزم کی قسم 
میں نے چاہا تھا اسے دل میں چھپا لوں ایسے 
جسم میں جیسے لہو سیپ میں جیسے موتی 
عمر بھر میں نہ جھپکتا کبھی اپنی آنکھیں 
میرے زانوں پہ وہ سر رکھ کے ہمیشہ سوتی 
شمع یک شب تو سمجھتا ہے اسے ایک جہاں 
کاش ہو جاتی وہ میرے لیے جیون جوتی 
در بدر اس کی تمازت نہ پریشاں ہوتی 
میں اسے لے کے بہت دور نکل جاؤں مگر 
وہ مری راہ میں دیوار بنی بیٹھی ہے 
زندگی بھر کی پرستش اسے منظور نہیں 
وہ تو لمحوں کی پرستار بنی بیٹھی ہے 
میں نے چاہا تھا اسے روح کی راحت کے لیے 
وہ مگر جان کا آزار بنی بیٹھی ہے 
کسی افسانے کا کردار بنی بیٹھی ہے 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *