Iztirab

Iztirab

لپٹ لپٹ کہ میں اس گُل کہ ساتھ سوتا تھا

لپٹ لپٹ کہ میں اس گُل کہ ساتھ سوتا تھا 
رقیب صبح کو منہ آنسوؤں سے دھوتا تھا 
تمام رات تھی اُور کہنیاں و لاتیں تھیں 
نہ سونے دیتا تھا مُجھ کو نہ آپ سوتا تھا 
جُو بات ہجر کی آتی تُو اپنے دامن سے 
وُہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اُور میں روتا تھا 
مسکتی چولی تُو لوگوں سے چھپ کہ سینے کو 
وُہ تاگے بٹتا تھا اُور میں سوئی پروتا تھا 
غرض دکھانے کو آن و ادا کہ سو عالم 
وُہ مُجھ سے پاؤں دھلاتا تھا اُور میں دھوتا تھا 
لٹا کہ سینے پہ چنچل کو پیار سے ہر دم 
میں گدگداتا تھا ہنس ہنس وُہ ضعف کھوتا تھا 
وُہ مُجھ پہ پھینکتا پانی کی کلیاں بھر بھر 
میں اس کہ چھینٹوں سے تُو پیرہن بھگوتا تھا 
نہانے جاتے تُو پھر آہ کرتی چھینٹوں سے 
وُہ غوطے دیتا تھا اُور میں اسے ڈبوتا تھا 
ہوا نہ مُجھ کو خمار آخر ان شرابوں کا 
.نظیرؔ آہ اسی روز کو میں روتا تھا 

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *