Iztirab

Iztirab

لڑکپن کی یاد

تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 
کبھی خالی کلاسوں میں جو بچے غل مچاتے ہیں 
کسی انجان شاعر کی غزل مل جل کے گاتے ہیں 
خوشی سے ناچتے ہیں ڈیسک پر طبلہ بجاتے ہیں 
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 
ہوا کرتی ہے جب چھٹی تو چنچل سرپھرے خود سر 
لئے ہاتھوں میں بستے مارتے فٹ بال کو ٹھوکر 
اچھلتے کودتے بچے نظر آتے ہیں سڑکوں پر 
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 
کبھی اس شاخ سے اس شاخ پر بچے اچھلتے ہیں 
کبھی شاخوں پہ جھولے ڈال کر ظالم مچلتے ہیں 
سماں یہ دیکھ کر ماں باپ کے سینے دہلتے ہیں 
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 
کوئی شاگرد جب ساتھی کو اپنے گدگداتا ہے 
وہ ساتھی ہو کے عاجز سامنے فریاد لاتا ہے 
کلاس اس بے بسی پر چپکے چپکے مسکراتا ہے 
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 
ہزاروں شوخیاں ہوتی ہیں بچپن کے زمانے میں 
چبھو کر پن کوئی بچہ کسی بچے کے شانے میں 
ہوا کرتا ہے جب مشغول طنزاً مسکرانے میں 
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *