Iztirab

Iztirab

لیلائے کرپشن

آئی ہے مرے شہر میں اک شوخ حسینہ
سرشار جوانی ہے کہ ساون کا مہینہ
رعنائی کے تیور ہیں کہ طوفاں کا قرینہ
اک محشر جذبات ہے ظالم کی جوانی
مستانہ ادائیں ہیں کہ دریا کی روانی
ہر منہ میں بھر آتا ہے جسے دیکھ کے پانی
شوخی ہے کہ برسات کی گنگھور گھٹائیں
یا بزم خرابات کی مخمور ہوائیں
یا وادئ کشمیر کی مسحور فضائیں
ہر شخص کو جام مے دیدار پلا کر
ہر دل میں چراغ اپنی تمنا کا جلا کر
ہر روح میں وارفتگئ شوق بڑھا کر
یوں چھیڑ دیا اس نے محبت کا ترانہ
اک آن میں تسخیر ہوا سارا زمانہ
عشاق بھلا بیٹھے زلیخا کا فسانہ
ویسے تو پھنسانے میں وہ مشتاق بڑی ہے
ہر شخص پہ ہر دل پہ نظر اس کی گڑی ہے
جی جان سے لیکن وہ دفاتر پہ پڑی ہے
سرکار کے دفتر کا اسسٹنٹ بیچارہ
ٹکرا گیا اس شوخ کی نظروں سے قضا را
اور فرض کی بازی میں بری طرح سے ہارا
فائز ہیں مگر عہدۂ عالی پہ جو افسر
ظالم کی محبت میں ہوئے آپے سے باہر
حال ان کے دل زار کا ہر دل سے ہے ابتر
اس دشمن ایماں نے کسی کو بھی نہ چھوڑا
جو اس کے مقابل تھے غرور ان کا بھی توڑا
دل اپنی طرف قوم کے لیڈر کا بھی موڑا
جو دیش کے سیوک تھے اہنسا کے پجاری
خود ان سے حسینہ نے کہا میں ہوں تمہاری
اور ان پہ بھی الفت کا جنوں ہو گیا طاری
اب دیش کی سیوا کی بھلا کیا ہے ضرورت
اب وقت کہاں ہے جو کریں قوم کی خدمت
اب وہ ہیں اور اس شوخ کی آغوش محبت
رضا نقوی واہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *