Iztirab

Iztirab

مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے

مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے 
جاتے ہو کہاں رخ پھیر کے تم مجھ کو تو ابھی کچھ کہنا ہے 
کھینچیں گے وہاں پھر سرد آہیں آنکھوں سے لہو پھر بہنا ہے 
افسانہ کہا تھا جو ہم نے دہرا کے وہیں تک کہنا ہے 
دشوار بہت یہ منزل تھی مر مٹ کے تہہ تربت پہنچے 
ہر قید سے ہم آزاد ہوئے دنیا سے الگ اب رہنا ہے 
رکھتا ہے قدم اس کوچہ میں ذرے ہیں قیامت زا جس کے 
انجام وفا ہے نظروں میں آغاز ہی سے دکھ سہنا ہے 
اے پیک اجل تیرے ہاتھوں آزاد تعلق روح ہوئی 
تا حشر بدل سکتا ہی نہیں ہم نے وہ لباس اب پہنا ہے 
اے گریہ خوں تاثیر دکھا اے جوش فغاں کچھ ہمت کر 
رنگیں ہو کسی کا دامن بھی اشکوں کا یہاں تک بہنا ہے 
اپنا ہی سوال اے دلؔ ہے جواب اس بزم میں آخر کیا کہیے 
کہنا ہے وہی جو سننا ہے سننا ہے وہی جو کہنا ہے

دل شاہجہاں پوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *