Iztirab

Iztirab

متاع زیست کیا ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں

متاع زیست کیا ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
جسے سب درد کہتے ہیں اسے ہم دل سمجھتے ہیں
اسی سے دل اسی سے زندگی دل سمجھتے ہیں
مگر حاصل سے بڑھ کر سعی بے حاصل سمجھتے ہیں
کبھی سنتے تھے ہم یہ زندگی ہے وہم و بے معنی
مگر اب موت کو بھی خطرہ باطل سمجھتے ہیں
بہت سمجھے ہوئے ہے شیخ راہ و رسم منزل کو
یہاں منزل کو بھی ہم جادہ منزل سمجھتے ہیں
ابھرنا ہو جہاں جی چاہتا ہے ڈوب مرنے کو
جہاں اٹھتی ہوں موجیں ہم وہاں ساحل سمجھتے ہیں
کوئی سرگشتہ راہ طریقت اس کو کیا جانے
یہاں افتادگی کو حاصل منزل سمجھتے ہیں
تماشا ہے نیاز و ناز کی باہم کشاکش کا
میں ان کا دل سمجھتا ہوں وہ میرا دل سمجھتے ہیں
عبث ہے دعوئ عشق و محبت خام کاروں کو
یہ غم دیتے ہیں جس کو جوہر قابل سمجھتے ہیں
غم لا انتہا سعی مسلسل شوق بے پایاں
مقام اپنا سمجھتے ہیں نہ ہم منزل سمجھتے ہیں

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *