Iztirab

Iztirab

مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو

مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو 
تجلی طور سینا کی میرے گھر کا اجالا ہو 
مسلماں نا مسلماں گبر ہو کافر ہو ترسا ہو 
وہی اچھا ہے اے جاں جو تیری نظروں میں اچھا ہو 
تمارا تو ادا سے مارنا بھی زندہ کرنا ہے 
کسی کا کوئی عیسیٰ ہو مرے تو تم مسیحا ہو 
میں خوش ہوں ہجر کی ساری بلائیں میرے سر جائیں 
مگر اے گیسوئے جاناں نہ ترا بال بیکا ہو 
ذرا کچھ اور بھی ہمت نکل جائے میری حسرت 
وہ آتا ہے نظر باب اثر اے ناتواں آہو 
کسی کی نیچی نظروں نے کیا کار مسیحائی 
انوکھی بات ہے بیمار سے بیمار اچھا ہو 
یہ کس نے کہہ دیا تم بے نقاب آؤ قیامت میں 
کسے منظور تھا اور حشر میں اک حشر برپا ہو 
میں کہہ سکتہ ہوں لیکن آپ میرا منہ نہ کھلوائیں 
سمجھ لیں آنکھوں ہی آنکھوں میں جو میری تمنا ہو 
وہ سن کر شکوہ ظلم و ستم جھنجھلا کے کہتے ہیں 
کہ ہم نے کب کہا تھا ہم حسیں ہیں تم ہمیں چاہو
تمہاری جستجو جس جس جگہ لے جائے جائیں گے 
ہمیں اس سے غرض کیا ہے وہ کعبا ہو کلیسا ہو 
وہ دل داری کا وعدہ کرتے ہیں بیدمؔ قسم کھا کر 
.تصدق کر دو تم بھی جان کو اب دیکھتے کیا ہو

بیدم شاہ وارثی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *