Iztirab

Iztirab

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے 
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے 
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے
 سر 
اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے 
وہی بات جو وہ نہ کہہ سکے مرے شعر و نغمہ میں آ گئی 
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدح شراب میں ڈھل گئے 
وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں 
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے 
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمیٔ بزم ہے 
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے 
مرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں 
بڑھیں اس قدر مری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے 

مجروح سلطانپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *