Iztirab

Iztirab

مجھے گھر یاد آتا ہے

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو 
یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا 
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں 
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی 
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا 
جسے ساحل نہیں ملتا 
میں جس کے سامنے آؤں مجھے لازم ہے ہلکی مسکراہٹ میں کہیں یہ ہونٹ تم کو 
جانتا ہوں دل کہے 'کب چاہتا ہوں میں' 
انہی لہروں پہ بہتا ہوں مجھے ساحل نہیں ملتا 
سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو 
وہ کیسی مسکراہٹ تھی بہن کی مسکراہٹ تھی، میرا بھائی بھی ہنستا تھا 
وہ ہنستا تھا بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے 
یہ کیسی بات بھائی نے کہی دیکھو وہ اماں اور ابا کو ہنسی آئی 
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل 
مجھے ساحل نہیں ملتا 

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو 
یہ کیسا پھیر ہے تقدیر کا یہ پھیر تو شاید نہیں لیکن 
یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا ہے 

حیات مختصر سب کی بہی جاتی ہے اور میں بھی 
ہر اک کو دیکھتا ہوں مسکراتا ہے کہ ہنستا ہے 
کوئی ہنستا نظر آئے کوئی روتا نظر آئے 
میں سب کو دیکھتا ہوں دیکھ کر خاموش رہتا ہوں 
مجھے ساحل نہیں ملتا 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *