Iztirab

Iztirab

مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں

مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں 
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں 

ہر کسی سے کرب کا اظہار میں روزے سے ہوں 
دو کسی اخبار کو یہ تار میں روزے سے ہوں 

میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگو کے سر 
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار میں روزے سے ہوں 

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرع لکھ دیا 
کام ہو سکتا نہیں سرکار میں روزے سے ہوں 

اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کترا کے چل 
اے مرے بچو ذرا ہوشیار میں روزے سے ہوں 

شام کو بہر زیارت آ تو سکتا ہوں مگر 
نوٹ کر لیں دوست رشتہ دار میں روزے سے ہوں 

تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل 
میں یہ کہتا ہوں کہ بر خوردار میں روزے سے ہوں 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *