Iztirab

Iztirab

مجھ کو دماغ گرمی بازار ہے کہاں

مجھ کو دماغ گرمی بازار ہے کہاں
افسردگی میں لذت گفتار ہے کہاں
یاران مصلحت میں نہیں جوہر وفا
اہل غرض میں خوبیٔ کردار ہے کہاں
لاکھوں کی بھیڑ میں بھی ہوں سب سے الگ تھلگ
اس شہر میں غریب کا غم خوار ہے کہاں
جلووں کو بھی ہے چشم تماشا کی جستجو
وہ پوچھتے ہیں طالب دیدار ہے کہاں
کانٹوں میں آ گئی ہے گل تر کی تازگی
اب لطف سیر وادی پر خار ہے کہاں
ناکامیوں کی دھوپ میں جلتے ہیں دل جلے
صحرائے غم میں سایہ دیوار ہے کہاں
شوق حصول زر ہے تو ذوق سخن نہ رکھ
نور سحر کہاں ہے شب تار ہے کہاں
دلی کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو گیا ہے دل
تنہا بھٹک رہا ہوں دل زار ہے کہاں
طالبؔ غم حیات نے جینا سکھا دیا
اب زندگی کا بار مجھے بار ہے کہاں

طالب چکوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *