Iztirab

Iztirab

مجھ کو شکستگی کا قلق دیر تک رہا

مجھ کو شکستگی کا قلق دیر تک رہا
کیوں چہرہ پھر جناب کا فق دیر تک رہا
یوں تو کئی کتابیں پڑھیں ذہن میں مگر
محفوظ ایک سادہ ورق دیر تک رہا
اکثر شب وصال ترے روٹھنے کے بعد
احساس پر طلسم رمق دیر تک رہا
اب ہے کتاب عشق میں جو سادہ و سلیس
پہلے وہ لفظ لفظ ادق دیر تک رہا
سورج کے سر کو شام کے نیزے پہ دیکھ کر
دست زمیں پہ رنگ شفق دیر تک رہا
اس کا جواب ایک ہی لمحے میں ختم تھا
پھر بھی مرے سوال کا حق دیر تک رہا
بیکلؔ جسے بھلا کے زمانہ ہے مطمئن
تجھ کو ہی یاد وہ بھی سبق دیر تک رہا
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *