Iztirab

Iztirab

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند
یہ دل وہی تو ہے جو تمہیں اب ہے نا پسند
معشوق کر چکے ہیں جسے بارہا پسند
جنس وفا کو کرتے ہیں اہل وفا پسند
دشمن کو کیا تمیز ہے دشمن کی کیا پسند
جنت کی کوئی حور نظر پر چڑھی نہیں
دنیا میں مجھ کو ایک پری زاد تھا پسند
روندی کسی نے پائے حنائی سے میری نعش
تھی زندگی میں مجھ کو جو بوئے حنا پسند
وہ بد نصیب ہے جسے آیا پسند تو
قسمت تو اس کی ہے جسے تو نے کیا پسند
چڑتے ہیں وہ سوال سے یہ ہم سمجھ گئے
ہے اس لیے انہیں دل بے مدعا پسند
صورت بھی پیش چشم ہے سیرت بھی پیش چشم
دم بھر میں تو پسند ہے دم بھر میں نا پسند
تجھ کو غرور زہد ہے شرم گنہ مجھے
زاہد کسے خبر کہ خدا کو ہو کیا پسند
چوٹیں چلیں گی خوب برابر کی جوڑ ہے
تو ہے ادا شناس تو میں ہوں ادا پسند
ہر پھر کے ان کی آنکھ عدو سے لڑے نہ کیوں
فتنہ کو کرتی ہے نگہ فتنہ زا پسند
میں خود سکھا رہا ہوں ستم کی ادا انہیں
دنیا میں کب ہوا کوئی مجھ سا جفا پسند
رکھ دیں گے آئینہ کے برابر ہم اپنا دل
یا تو یہ نا پسند ہوا ان کو یا پسند
کس درجہ سادہ لوح ہیں عاشق مزاج بھی
جو ڈھب پہ چڑھ گیا وہ انہیں آ گیا پسند
میرا ہی کیا قصور یہ مجھ پر ستم ہے کیوں
آنکھوں نے دیکھا آپ کو دل نے کیا پسند
انکار سن چکے ہیں طلب گار کیوں بنیں
ملتا نہیں کوئی تو ہے بے فائدہ پسند
بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے
اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *