محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں کہ تار قلم نے زبانیں نکالیں ہوا ہاتھ اس کا لہو سے حنائی زبس اس نے کشتوں کی جانیں نکالیں وہ لڑکا تھا جب تک یہ سج دھج کہاں تھی جواں ہوتے ہی اس نے شانیں نکالیں لگا تیر سا آ کے مانیؔ کے دل پر جب ان ابرووں کی کمانیں نکالیں شبہ کا گماں تھا نہ یاروں کو جس جا میں واں لعل و گوہر کی کانیں نکالیں پھسل ہی گیا کلک تصویر مانیؔ کمر کھینچ کر جوں ہی رانیں نکالیں زہے کلک صنعت کہ جس نے زمیں پر بہاریں بنائیں خزانیں نکالیں گلا ڈوک میں گرچہ تھا مصحفیؔ کا پر اس پر بھی دو چار تانیں نکالیں
غلام ہمدانی مصحفی