Iztirab

Iztirab

محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں

محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں 
کہ تار قلم نے زبانیں نکالیں 
ہوا ہاتھ اس کا لہو سے حنائی 
زبس اس نے کشتوں کی جانیں نکالیں 
وہ لڑکا تھا جب تک یہ سج دھج کہاں تھی 
جواں ہوتے ہی اس نے شانیں نکالیں 
لگا تیر سا آ کے مانیؔ کے دل پر 
جب ان ابرووں کی کمانیں نکالیں 
شبہ کا گماں تھا نہ یاروں کو جس جا 
میں واں لعل و گوہر کی کانیں نکالیں 
پھسل ہی گیا کلک تصویر مانیؔ 
کمر کھینچ کر جوں ہی رانیں نکالیں 
زہے کلک صنعت کہ جس نے زمیں پر 
بہاریں بنائیں خزانیں نکالیں 
گلا ڈوک میں گرچہ تھا مصحفیؔ کا 
پر اس پر بھی دو چار تانیں نکالیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *