محفل سے ان کی سینکڑوں پی کر نکل گئے مجھ سے ملی جو آنکھ تو تیور بدل گئے وہ ایسی قاتلانہ اداؤں میں ڈھل گئے زخمی کیا جو دل تو کلیجہ مسل گئے کچھ اس طرح وہ ہم سے بھی تیور بدل گئے ارمان و آرزو کے جنازے نکل گئے قسمت پھری تو پھر گئے احباب اس طرح دیکھا مجھے تو دور سے رستہ بدل گئے کیا شمع انجمن پہ جلانے کا اتہام جلنا ہی تھا نصیب میں پروانے جل گئے دل ہم سے لے کے ان کی نگاہیں بدل گئیں دھوکا دیا فریب کیا چال چل گئے تھکنے لگے جو پاؤں تو یوں راہ تے ہوئی اس انجمن میں اہل وفا سر کے بل گئے اس آستان ناز کا جب تذکرہ ہوا میری جبین شوق میں سجدے مچل گئے ان کا جمال دیکھ کے دیکھا جو اے نصیرؔ قلب و نگاہ حسن کے سانچے میں ڈھل گئے
پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ