Iztirab

Iztirab

مرثیہ بال گنگا دھر تلک

موت نے رات کے پردے میں کیا کیسا وار
روشنئ صبح وطن کی ہے کہ ماتم کا غبار
معرکہ سرد ہے سویا ہے وطن کا سردار
طنطنہ شیر کا باقی نہیں سونا ہے کچھار
بیکسی چھاتی ہے تقدیر پھری جاتی ہے
قوم کے ہاتھ سے تلوار گری جاتی ہے
اٹھ گیا دولت ناموس وطن کا وارث
قوم مرحوم کے اعزاز کہن کا وارث
جاں نثار ازلی شیر دکن کا وارث
پیشواؤں کے گرجتے ہوئے رن کا وارث
تھی سمائی ہوئی پونا کی بہار آنکھوں میں
آخری دور کا باقی تھا خمار آنکھوں میں
موت مہراشٹ کی تھی یا تری مرنے کی خبر
مردنی چھا گئی انسان تو کیا پتھر پر
پتیاں جھک گئیں مرجھا گئے صحرا کے شجر
رہ گئے جوش میں بہتے ہوئے دریا تھم کر
سرد و شاداب ہوا رک گئی کہساروں کی
روشنی گھٹ گئی دو چار گھڑی تاروں کی
تھا نگہبان وطن دبدبۂ عام ترا
نہ ڈگیں پاؤں پہ تھا قوم کو پیغام
دل رقیبوں کے لرزتے تھے یہ تھا کام تیرا
نیند سے چونک پڑے سن جو لیا نام تیرا
یاد کر کے تجھے مظلوم وطن روئیں گے
بندۂ رسم جفا چین سے اب سوئیں گے
زندگی تیری بہار چمنستان وفا
آبرو تیرے لئے قوم سے پیمان وفا
عاشق نام وطن کشتہ ارمان وفا
مرد میدان وفا جسم وفا جان وفا
ہو گئی نذر وطن ہستی فانی تیری
نہ تو پیری رہی تیری نہ جوانی تیری
اوج ہمت پہ رہا تیری وفا کا خورشید
موت کے خوف پہ غالب رہی خدمت کی امید
بن گیا قید کا فرمان بھی راحت کی نوید
ہوئے تاریکیٔ زنداں میں ترے بال سپید
پھر رہا ہے مری نظروں میں سراپا تیرا
آہ و قید ستم اور بڑھاپا تیرا
معجزہ اشک محبت کا دکھایا تو نے
ایک قطرہ سے یہ طوفان اٹھایا تو نے
ملک کو ہستی بیدار بنایا تو نے
جذبۂ قوم کو جادو کو جگایا تو نے
اک تڑپ آ گئی سوتے ہوئے ارمانوں میں
بجلیاں کوند گئیں قوم کے ویرانوں میں
لاش کو تیری سنواریں نہ رفیقان کہن
ہو جبیں کے لئے صندل کی جگہ خاک وطن
تر ہوا ہے جو شہیدوں کے لہو سے دامن
دیں اسی کا تجھے پنجاب کے مظلوم کفن
شور ماتم نہ ہو جھنکار ہو زنجیروں کی
چاہیے قوم کے بھیشم کو چتا تیروں کی

برج نرائن چکبست

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *