Iztirab

Iztirab

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے 
انداتا کیسا ہے آگ نہ پانی دے 
اس دھرتی پر ہریالی کی جوت جگا 
کالے میگھا پانی دے گردانی دے 
بند افلاک کی دیواروں میں روزن کر 
کوئی تو منظر مجھ کو امکانی دے 
میرے دل پر کھول کتابوں کے اسرار 
میری آنکھ کو اپنی صاف نشانی دے 
ارض و سما کے پس منظر سے سامنے آ 
دل کو یقیں دے آنکھوں کو حیرانی دے 
میرے ہونے میرے نہ ہونے میں کیا ہے 
موت کو مفہوم اس ہستی کو معانی دے 
برکت دے دن پھیرنے والی دعاؤں کو 
رات کو کوئی خوش تعبیر کہانی دے 
ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند 
آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے 
مجھ کو جہاں کے ساتوں سکھ دینے والے 
دینا ہے تو کوئی دولت لا فانی دے 
تجھ سے جدا ہو کر تو میں مر جاؤں گا 
مجھ کو اپنا سر اے دوست نشانی دے 
اک اک پتھر راہ کا زیبؔ ہٹاتا چل 
پیچھے آنے والوں کو آسانی دے 

زیب غوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *