Iztirab

Iztirab

مری باتوں پہ دنیا کی ہنسی کم ہوتی جاتی ہے

مری باتوں پہ دنیا کی ہنسی کم ہوتی جاتی ہے
مری دیوانگی شاید مسلم ہوتی جاتی ہے
توجہ کی نظر میری طرف کم ہوتی جاتی ہے
میں خوش ہوں عشق کی بنیاد محکم ہوتی جاتی ہے
ضرورت کچھ بھی کہنے کی بہت کم ہوتی جاتی ہے
مری صورت ہی اب شوق مجسم ہوتی جاتی ہے
کبھی تو نے پکارا تھا مجھے کچھ شک سا ہوتا ہے
مرے کانوں میں اک آواز پیہم ہوتی جاتی ہے
مجھے سمجھانے آئے ہیں کہ میں رونے سے باز آؤں
مرے سمجھانے والوں کی نظر نم ہوتی جاتی ہے
ابھی سن لو تو شاید سن سکو تم دل کے نغموں کو
کہ اب اس کی صدا کچھ خودبخود کم ہوتی جاتی ہے
وہی دل ہے مگر اب وہ نہیں اگلی سی بیتابی
وہی خوں ہے مگر رفتار مدھم ہوتی جاتی ہے
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے
نشاط زیست کی ضامن ہے اب یاد‌ محبت ہی
یہی خود عشق کے زخموں کا مرہم ہوتی جاتی ہے
محبت ہی سے کھولو تم دل ملاؔ کا دروازہ
یہی اس کے لیے اب اسم اعظم ہوتی جاتی ہے

آنند نرائن ملا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *