Iztirab

Iztirab

مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا

مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا 
میں بننے کو اکیلا بن رہا تھا 
اور اب جب تن چکا تو شرم آئی 
کئی دن سے یہ پردہ بن رہا تھا 
زیادہ ہو رہی تھیں دو سرائیں 
میں پھر محفل کا حصہ بن رہا تھا 
قیامت اور قیامت پر قیامت 
میں خوش تھا میرا حلقہ بن رہا تھا 
فلک مٹ سا گیا حد نظر تک 
ستارہ ہی اک ایسا بن رہا تھا 
نشیب شہر تھا یوں روز افزوں 
میان شہر زینہ بن رہا تھا 
خرابی میں یہ خم آیا اچانک 
خرابہ اچھا خاصا بن رہا تھا 
میں آدھا جسم جا بیٹھا وہیں پر 
جہاں باقی کا آدھا بن رہا تھا 
اور اب جب کچھ نہ بن پایا تو بولے 
یہی تو تھا جو کب کا بن رہا تھا 
اداکاری نمو داری تھی یکسر 
میں ناموجود کتنا بن رہا تھا 
ٹھہر جانا ضرورت سے تھا یعنی 
گزر جانے کا لمحہ بن رہا تھا 
مجھے آسان تھا ہونا نہ ہونا 
زمانہ مٹ رہا تھا بن رہا تھا 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *