Iztirab

Iztirab

مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی

مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی 
چمن گرفت خزاں میں ہوگا بہار اجڑی ہوئی ملے گی 
جواں ہے ہمت ہے عزم محکم نظر اٹھائیں تو اہل دانش 
الم کے تاریک افق پہ روشن شعاع امید بھی ملے گی 
تصور اس ماہرو کا ہوگا کبھی تو دل میں ضیا بدامن 
کبھی تو ظلمت کدے میں ہم کو کھلی ہوئی چاندنی ملے گی 
مرا پتہ پوچھ کر نہ توڑو سکوت میرا جمود میرا 
بلند محلوں میں رہنے والو کہاں مری جھونپڑی ملے گی 
یہ کور چشمی کا ہے تماشا کہ ظلمتوں کی تہیں جمی ہیں 
نظر سے پردہ ہٹا کے دیکھیں یہاں وہاں روشنی ملے گی 
روایتی پیکر غزل میں بھرا ہے رنگ جدید میں نے 
ضیاؔ مرے شعر میں مہیا کوئی نئی بات ہی ملے گی 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *