Iztirab

Iztirab

مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر

مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر 
رہ گیا شوق دل زار میں ارماں ہو کر 
زیست دو روزہ ہے ہنس کھیل کے کاٹو اس کو 
گل نے یہ راز بتایا مجھے خنداں ہو کر 
اشک شادی ہے یہ کچھ مژدہ صبا لائی ہے 
شبنم آلودہ ہوا پھول جو خنداں ہو کر 
ذرۂ وادئ الفت پہ مناسب ہے نگاہ 
فلک حسن پہ خورشید درخشاں ہو کر 
شوخیاں اس نگہ زیر مژہ کی مت پوچھ 
دل عاشق میں کھبی جاتی ہے پیکاں ہو کر 
شدت شوق شہادت کا کہوں کیا عالم 
تیغ قاتل پڑی سر پہ مرے احساں ہو کر 
اب تو وہ خبط مرے عشق کو کہہ کر دیکھیں 
خود ہی آئینے کو تکنے لگے حیراں ہو کر 

غلام بھیک نیرنگ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *