Iztirab

Iztirab

مزہ تھا ہم کو جُو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے

مزہ تھا ہم کو جُو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے 
کے گُل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے 
مزے جُو مُوت کہ عاشق بیاں کبھو کرتے 
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے 
غرض تھی کیا تیرے تیروں کو آب پیکاں سے 
مگر زیارت دِل کیوں کے بے وضو کرتے 
عجب نہ تھا کے زمانے کہ انقلاب سے ہم 
تیمم آب سے اُور خاک سے وضو کرتے 
اگر یہ جانتے چن چن کہ ہم کو توڑیں گے 
تُو گُل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے 
سمجھ یہ دار و رسن تار و سوزن اے منصور 
کے چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے 
یقیں ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش 
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے 
نہ رہتی یوسف کنعاں کی گرمئ بازار 
مقابلے میں جُو ہم تُجھ کو روبرو کرتے 
چمن بھی دیکھتے گلزار آرزو کی بہار 
تمہاری باد بہاری میں آرزو کرتے 
سراغ عمر گزشتہ کا کیجئے گر ذوقؔ 
.تمام عُمر گزر جائے جستُجو کرتے 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *