Iztirab

Iztirab

مسکرا کر خطاب کرتے ہو

مسکرا کر خطاب کرتے ہو 
عادتیں کیوں خراب کرتے ہو 
مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر 
کیا یہ کار ثواب کرتے ہو 
مفلسی اور کس کو کہتے ہیں
دولتوں کا حساب کرتے ہو 
صرف اک التجا ہے چھوٹی سی 
کیا اسے باریاب کرتے ہو 
ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے 
تم کسے انتخاب کرتے ہو 
خار کی نوک کو لہو دے کر 
انتظار گلاب کرتے ہو 
یہ نئی احتیاط دیکھی ہے 
آئنے سے حجاب کرتے ہو 
کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی 
کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو 
ہو چکا جو حساب ہونا تھا 
اور اب کیا حساب کرتے ہو 
ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا 
روز شغل شراب کرتے ہو 
کتنے بے رحم ہو عدمؔ تم بھی 
ذکر عہد شباب کرتے ہو 
ہو کسی کی خوشی گر اس میں عدمؔ 
جرم کا ارتکاب کرتے ہو 

عبد الحمید عدم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *