Iztirab

Iztirab

مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا

مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا 
یارو مرے اور اس کے کب ربط سخن کا تھا 
واں بالوں میں وہ مکھڑا جاتا تھا چھپا کم کم 
یاں حشر مرے دل پر اک چاند گہن کا تھا 
تھے خط شکستہ کی رخسار ترے تعلیم 
از بس کہ ہجوم ان پر زلفوں کی شکن کا تھا 
پروانے کی ہمت کے صدقے میں کہ دی شب وہ 
اس بے پر و بالی پر قربان لگن کا تھا 
آخر کو ہمیں ظالم پامال کیا تو نے 
اندیشہ ہمیں دل میں تیرے ہی چلن کا تھا 
میں اس قد و عارض کو کر یاد بہت رویا 
مذکور گلستاں میں کچھ سرو و سمن کا تھا 
جوں اشک سر مژگاں ہم پھر نہ نظر آئے 
از بس کہ یہاں وقفہ اک چشم زدن کا تھا 
دو پھول کوئی رکھ کر گزرا تھا جو کل یاں سے 
تربت پہ مری بلوا مرغان چمن کا تھا 
جس مرغ چمن کو میں دیکھا تو چمن میں بھی 
حسرت کش نظارہ اس رشک چمن کا تھا 
شب دیکھ مہ تاباں تھا مصحفیؔ تو حیراں 
کیا اس میں بھی کچھ نقشہ اس سیم بدن کا تھا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *