Iztirab

Iztirab

مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں

مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں 
ہنس کر فریب چشم کرم کھا گیا ہوں میں 
بس انتہا ہے چھوڑیئے بس رہنے دیجئے 
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں 
ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا 
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں 
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ 
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں 
کیا اب حساب بھی تو مرا لے گا حشر میں 
کیا یہ عتاب کم ہے یہاں آ گیا ہوں میں 
میں عشق ہوں مرا بھلا کیا کام دار سے 
وہ شرع تھی جسے وہاں لٹکا گیا ہوں میں 
نکلا تھا مے کدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ 
گھبرا کے سوئے مے کدہ پھر آ گیا ہوں میں 

عبد الحمید عدم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *