Iztirab

Iztirab

معشوقۂ گل نقاب میں ہے

معشوقۂ گل نقاب میں ہے 
محجوبہ ابھی حجاب میں ہے 
مہندی نہ لگا کہ جان میری 
ہاتھوں سے ترے عذاب میں ہے 
تو ہے وہ بلا کہ ماہ و خورشید 
زلفوں کی ترے رکاب میں ہے 
ہر اک تجھے آپ سا کہے ہے 
قضیہ مہ و آفتاب میں ہے 
اللہ رے ترے پسینے کی بو 
کب ایسی بھبھک گلاب میں ہے 
اس زلف کا اینٹھنا تو دیکھو 
بن چھیڑے ہی پیچ و تاب میں ہے 
قہاری کی شان جب سے تیری 
عالم کے اوپر عتاب میں ہے 
دل کوہ کا ہو گیا ہے پانی 
دریا سب اضطراب میں ہے 
اٹھ مصحفیؔ آفتاب نکلا 
اب تک تو دوانے خواب میں ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *