معشوقۂ گل نقاب میں ہے محجوبہ ابھی حجاب میں ہے مہندی نہ لگا کہ جان میری ہاتھوں سے ترے عذاب میں ہے تو ہے وہ بلا کہ ماہ و خورشید زلفوں کی ترے رکاب میں ہے ہر اک تجھے آپ سا کہے ہے قضیہ مہ و آفتاب میں ہے اللہ رے ترے پسینے کی بو کب ایسی بھبھک گلاب میں ہے اس زلف کا اینٹھنا تو دیکھو بن چھیڑے ہی پیچ و تاب میں ہے قہاری کی شان جب سے تیری عالم کے اوپر عتاب میں ہے دل کوہ کا ہو گیا ہے پانی دریا سب اضطراب میں ہے اٹھ مصحفیؔ آفتاب نکلا اب تک تو دوانے خواب میں ہے
غلام ہمدانی مصحفی