Iztirab

Iztirab

معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا

معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
دل جس سے ملائیں کوئی ایسا نہیں ملتا
دنیا میں اگر ڈھونڈیئے تو کیا نہیں ملتا
سب ملتے ہیں اک چاہنے والا نہیں ملتا
عشاق سے یوں آنکھ تمہاری نہیں ملتی
اغیار سے دل جیسے ہمارا نہیں ملتا
رہتی ہے کسر ایک نہ اک بات کی سب میں
ہم کو تو ان اچھوں میں بھی اچھا نہیں ملتا
کچھ حال سنے کچھ ہمیں تدبیر بتائے
غم خوار تو کیسا کوئی اتنا نہیں ملتا
کیا مفت میں تم دل کے خریدار بنے ہو
بے خرچ کئے دام یہ سودا نہیں ملتا
جب دیکھیے ہم راہ ہے دشمن کا تصور
ہم سے تو وہ خلوت میں بھی تنہا نہیں ملتا
دل کوئی ملاتا نہیں ٹوٹے ہوئے دل سے
دنیا میں ہمیں جوڑ ہمارا نہیں ملتا
برباد کیا یاس نے یوں خانہ دل کو
ڈھونڈے سے بھی اب داغ تمنا نہیں ملتا
جو بات ہے دنیا سے نرالی ہے نئی ہے
انداز کسی میں بھی تمہارا نہیں ملتا
آنکھیں کہے دیتی ہیں کہ دل صاف نہیں ہے
ملتا ہے وہ اس رنگ سے گویا نہیں ملتا
کہتے ہیں جلانے کو ہم اغیار کے منہ پر
ایسوں سے تو وہ رشک مسیحا نہیں ملتا
ظاہر ہے ملاقات ہے باطن میں جدائی
تم ملتے ہو دل ہم سے تمہارا نہیں ملتا
افسوس تو یہ ہے کہ تمہیں قدر نہیں ہے
عاشق تو زمانے میں بھی ڈھونڈا نہیں ملتا
کہنا وہ شرارت سے ترا دل کو چرا کر
کیا ڈھونڈتے ہو ہم سے کہو کیا نہیں ملتا
بیخودؔ نگہ لطف پہ دے ڈالئے دل کو
جو ملتا ہے سرکار سے تھوڑا نہیں ملتا

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *