Iztirab

Iztirab

معلوم نہیں کیوں

یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں 
رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں 
مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب 
مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں 
تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں 
ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں 
اب خون کے دھبے ہیں مدیروں کی قبا پر 
خامہ دم صمصام ہے معلوم نہیں کیوں 
خون رگ اسلام سے زہراب و سبو تک 
ابہام ہی ابہام ہے معلوم نہیں کیوں 
ہر بات پہ تعزیر ہے ہر قول پہ زنجیر! 
ہر شاخ پہ اک دام ہے معلوم نہیں کیوں 
جمہور کی یلغار سے ہر قصر شہی میں 
کہرام ہی کہرام ہے معلوم نہیں کیوں 

شورش کاشمیری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *