Iztirab

Iztirab

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا 
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا 
یہی تو ہیں دو ستون محکم انہیں پہ قائم ہے نظم عالم 
یہی تو ہے راز خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا 
صبا تصدق ترے نفس پر چمن ترے پیرہن پہ قرباں 
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا 
تمام محفل کے روبرو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں 
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا 
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگ شباب تیرا 
ادھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں 
ادھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا 
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا 
یہ شورش ذوق دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا 
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا 
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا 
بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشم تر سے پردہ 
.بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بند نقاب تیرا

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *