Iztirab

Iztirab

مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا

مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا
فاصلے کم ہو گئے منزل قریب آئی تو کیا
ہے وہی جبر اسیری اور وہی غم کا قفس
دل پہ بن آئی تو کیا یہ روح گھبرائی تو کیا
اپنی بے تابی دل کا خود تماشا بن گئے
آپ کی محفل کے بنتے ہم تماشائی تو کیا
بات تو جب ہے کہ سارا گلستاں ہنسنے لگے
فصل گل میں چند پھولوں کی ہنسی آئی تو کیا
لاؤ ان بے کیفیوں ہی سے نکالیں راہ کیف
وقت اب لے گا کوئی پر کیف انگڑائی تو کیا
کم نگاہی نے اسے کچھ اور گہرا کر دیا
وہ چھپاتے ہی رہیں رنگ شناسائی تو کیا
پھر ذرا سی دیر میں چونکائے گا خواب سحر
آخر شب جاگنے کے بعد نیند آئی تو کیا
بیڑیاں وہم تعلق کی نئی پہنا گئے
دوست آ کر کاٹتے زنجیر تنہائی تو کیا
شورش افکار سے اعجازؔ داماندہ سہی
چھن سکے گی پھر بھی فکر و فن کی رعنائی تو کیا

اعجاز صدیقی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *