Iztirab

Iztirab

مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے

مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے 
اب خود پہ بھی نہیں ہے گمان وفا مجھے 
اف ابتدائے شوق کی معصوم جستجو 
ہر پھول تھا چمن میں ترا نقش پا مجھے 
اے کھنچنے والے دیکھ مری بے پناہیاں 
آتی ہے دشمنوں سے بھی بوئے وفا مجھے 
دنیا تمہیں عزیز ہے میرے سوا مگر 
عالم ہے نا پسند تمہارے سوا مجھے 
کرتی نہیں عبور تمہیں میری جستجو 
کیا کر دیا ہے تم نے یہ کیا ہو گیا مجھے 
وضعاً بھی ہنس پڑا ہوں تو پھر دل سے مدتوں 
آئی کراہنے کی صدا پر صدا مجھے 
پھر بات بات میں ہے لچک التفات کی 
کیا پھر دکھاؤ گے کوئی خواب وفا مجھے 
یہ ہے فغاں کا زور تو پھر وہ چکا قفس 
کر دے گی میری شعلہ نوائی رہا مجھے 
کوتاہیٔ نظر سے احاطہ نہ ہو سکا 
ملنے کو یوں ملا ہے بتوں میں خدا مجھے 
میری وفا پہ آپ ہی چیں بر جبیں نہیں 
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا ہو گیا مجھے 
جس مدعائے شوق کی دریافت ہیں حضور 
مایوس کر رہا ہے وہی مدعا مجھے 
اک ضیق اک عذاب اک اندوہ اک تڑپ 
تم نے یہ دل کے نام سے کیا دے دیا مجھے 
ان کو گنوا کے حال رہا ہے یہ مدتوں 
آیا خیال بھی تو بڑا غم ہوا مجھے 
افلاس کے شباب مقدس میں بارہا 
آیا ہے پوچھنے مرے گھر پر خدا مجھے 
احسانؔ اپنے وقت پہ موت آئے گی مگر 
جینے کا مشورہ نہیں دیتی فضا مجھے 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *