Iztirab

Iztirab

منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے

منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے 
صبح تک مارے مزے ہی کے وہ جاں دیتا ہے 
بوسہ دینے کو تو کہتا ہے وہ مجھ سے لیکن 
میں جو چاہوں کہ ابھی دے سو کہاں دیتا ہے 
ناقہ گر گم نہ کرے راہ تو خود ریگ رواں 
استخواں ریزۂ مجنوں کا نشاں دیتا ہے 
صبح خیزوں کو بھی موت آ گئی کیا ہجر کی شب 
مرغ بولے ہے نہ ملا ہی اذاں دیتا ہے 
کچھ تو جگہ ہے مری دل میں بھی اس کے ورنہ 
غیروں کو یوں کوئی پہلو میں مکاں دیتا ہے 
دل و جاں مجھ سے وہ مانگے ہے بہائے بوسہ 
ہے تو سودا بہت اچھا پہ گراں دیتا ہے 
یہ دم سرد ہے کس کا کہ ہر اک نخل بہ باغ 
یاد بے برگی ایام خزاں دیتا ہے 
پھول جھڑتے ہیں منہ اس کے سے ہزاروں مجھ کو 
گالیاں گر کبھی وہ غنچہ دہاں دیتا ہے 
جان دروازے پر اس کے ہی میں جا کر دوں گا 
اضطراب دل اگر مجھ کو اماں دیتا ہے 
مصحفیؔ میں ہدف ناز ہوں اور واں غمزہ 
دم بدم دست تغافل میں کماں دیتا ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *