موت آئی آنے دیجیے پروا نہ کیجیے منزل ہے ختم سجدہ شکرانہ کیجیے زنہار ترک لذت ایذا نہ کیجیے ہرگز گناہ عشق سے توبہ نہ کیجیے نا آشنائے حسن کو کیا اعتبار عشق اندھوں کے آگے بیٹھ کے رویا نہ کیجیے تہ کی خبر بھی لائیے ساحل کے شوق میں کوشش بقدر ہمت مردانہ کیجیے وہ دن گئے کہ دل کو ہوس تھی گناہ کی یادش بخیر ذکر اب اس کا نہ کیجیے ساون میں خاک اڑتی ہے دل ہے رندھا ہوا جی چاہتا ہے گریہ مستانہ کیجیے دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
یگانہ چنگیزی